دوست کا فون ۔۔ گرم سہ پہر ۔۔ راول جھیل کنارے
ہم ابھی لیک ویوپوائنٹ کےداخلی گیٹ تک نہیں پہنچے تھےکہ موبائل کی گھنٹی بجی۔میں نے گاڑی کی رفتار مزید آہستہ کردی۔
"وحید بھائی آپ کہاں ہیں ؟"
میرے دفتر کے ساتھی اور عزیز دوست نسیم اخترکا فون تھا۔وہ جانتے تھےکہ ہم شمالی علاقوں کی آوارہ گردی کیلئے نکلے ہوئے ہیں۔
"ابھی ابھی اسلام آباد پہنچے ہیں۔ خیریت ؟ "
"ارے واہ ! ہم بھی اسلام آباد میں ہی ہیں ۔آپ کہاں ٹہرے ہوئےہیں؟"
"بھائی ہم تو صبح نتھیاگلی سے چلے تھے ،ابھی تو اسلام آباد میں داخل ہی ہوئے ہیں،لیک ویوپوائنٹ کے قریب ہیں ،راول جھیل کی طرف جارہے ہیں۔ تم کہا ں ہو ؟"
"ہم بھارہ کہو میں ٹہرے ہوئے ہیں۔"
**"کچھ ہی دیر پہلے ہم بھارہ کہو کے پاس سے ہی گزر رہے تھے۔" میں نے جواب دیا **
"بالکل !بھارہ کہو سے لیک ویو پارک زیادہ دور نہیں، آپ وہیں انتظار کیجئے گا، ہم بھی تھوڑی دیر تک پہنچتے ہیں۔"
میں ان کے اسلام آباد میں وارد ہونے سے بالکل بےخبر تھا۔انہوں نے ایک آدھ بار ذکرتو کیا تھا کہ اس موسم گرما میں فیملی کے ساتھ اسلام آباد اور مری جانے کاارادہ ہے، لیکن کراچی کے اکثر دوست صرف منصوبے بنانے اور پھر ان کا ذکر کرنے تک ہی محدود رہتے ہیں۔ کچھ کو عین وقت پرکسی اہم ذمے داری کابوجھ رو ک لیتاہےتو کچھ گوناگوں مصروفیات کی زنجیروں میں جکڑ ے جاتے ہیں، بعض زیادہ طویل سفر کا سوچ کرہی ہمت نہیں کرپاتے، اور بعض کو ہمالیہ ،قراقرم اور ہندوکش کے سلسلہ کوہ میں ہزاروں فٹ گہری کھائیوں کے ساتھ ساتھ گھومتی اوراترتی چڑھتی راہ کا تصورہی اتنا لرزا دیتا ہے کہ ان کے سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ اسلام آباد پہنچتے ہی اپنے دوست کے یوں اچانک فون آنے اور پھر فوراًملاقات بھی طے پاجانے پر مجھے حیرت بھی تھی اور خوشی بھی۔
کچھ ہی دیر میں ہم لیک ویو پوائنٹ کی پارکنگ میں پہنچ گئے۔ گاڑی سے اترے تو لگا کہ شاید آج دارالحکومت میں ہوائوں کے داخلے پرمکمل پابندی عائد ہے۔ کسی بھی سمت سے کوئی بھولا بھٹکا جھونکا بھی ادھر کا رخ نہیں کرتا تھا۔سہ پہر کے شام کی طرف بڑھنے کے باوجودسورج کی آب وتاب بھرپور اوردھوپ کی تمازت زوروں پرتھی۔راول جھیل پارکنگ سے کچھ فاصلے پر تھی۔تیز چمکتی دھوپ سے بچنے کیلئے جھیل کی طرف جاتی راہ کے ساتھ ساتھ موجودسبزہ زاروں میں لگے درختوں کی چھائوں کے سہارے ہم پیدل آگے بڑھتے رہے۔گرمی کی شدت نے جلد ہی ہمارےحلق میں کانٹے بودئیے۔راستے میں ایک اسٹال سے کولڈ ڈرنک لے کر پی تو ہماری حالت کچھ سنبھلی۔ قدم دوبارہ آگے بڑھائے تو کچھ ہی دیر میں یہ خود رو کانٹے پھرحلق میں اگ آئے۔
اچانک سامنے کچھ فاصلے پر دکھائی دیتی جھیل کے نیلگوں پانی پر نظر پڑی تو آنکھوں کے راستے کچھ تراوٹ سی روح میں اترتی محسوس ہوئی۔وسیع و عریض پرسکون جھیل کو دیکھتے ہی ہمارے قدم اس امید میں تیزی سے اس کی سمت بڑھے کہ پانی کے قرب میں کچھ ٹھنڈک ضرور مل پائیگی، یہ بھی ممکن تھا کہ دارالحکومت کے محافظوں کو چکمہ دے کر ہو ا کا کوئی ایک آدھ جھونکا بھی جھیل کی لہروں کی سیر کرتا اس کنارے تک پہنچ گیا ہو۔یہی آس دل میں لئے ہم جھیل کے عین کنارے لگی ریلنگ سے جاٹکے ۔۔لیکن بے سود۔جھیل کو اپنےبالکل قریب دیکھ کر ہمارے چہرے جوخوشی سے تمتما نا شروع ہی ہوئے تھے، فوراً ہی دھوپ کی تپش سے تپتپانے لگے۔دور دور تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا لیکن اس میں سے نہ تو برائے نام ٹھنڈک اوپر کا رخ کرتی تھی، نہ ہی ہوا کا کچھ اتا پتہ تھا کہ سطح آب سے کچھ ٹھنڈک چرا کرہی ہمارے لئے لے آتی۔