haroonmcs26
(haroonmcs26)
#223
یہ پگڈنڈیا ں صرف اس اسٹینڈ تک ہی نہیں جا رہیں تھیں جہاں ہماری بائیک کھڑی تھی بلکہ مختلف اطراف میں نکل رہیں تھیں جو غالباً اردگرد پھیلی ہوئیں مقامی آبادیوں یا سیر گاہوں کی طرف جا رہیں تھیں۔ جن کی جیبوں میں کچھ زیادہ پیسے تھے یا ان کو کوئی مسئلہ تھا وہ لوگ گھوڑوں پر بھی آ جا رہے تھے لیکن ہم جیسے آوارہ گرد تو اپنی ٹانگوں کے گھوڑے پر ہی انحصار کر رہے تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#224
ہم آہستہ آہستہ چلتے اور اردگرد کے مناظر کو دیکھتے ہوئے بالآخر دوسری پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گئے ۔ بے شک چڑھائی چڑھنے سے تھکن کا احساس تو ہو رہا تھا لیکن جب اردگرد کے مناظر پر نظر پڑتی تو ذہنی و جسمانی طور پر تازگی کا احساس جاگ اٹھتا تھا اور کچھ دیر رکنے کے بعد جسم میں مزید آگے جانے کی خواہش انگڑائی لینے لگ جاتی ۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#225
اسکے بعد ہم دوسری پہاڑی اتر کر تیسری کی چڑھائی چڑھنے لگے۔ اس کی چڑھائی پر کنکریٹ کی سیڑھیاں بنی ہوئیں تھیں۔ ساتھ کی وادیوں کے سر سبز مناظر اب بھی ہمارے ساتھ تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#226
تیسری پہاڑی سے آگے جو راستہ جا رہا تھا وہ کنکریٹ کا پختہ راستہ تھا ۔ راستے میں ملنے والے لوگوں سے تھوڑی بہت ہیلو ہائے بھی ہوتی رہی۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#227
کنکریٹ کے راستے نے اگلی پہاڑی کی کچھ چڑھائی تک ساتھ دیا اور اسکے بعد وہی کچا اور پتھروں والا راستہ ۔ لوگ صرف اسی راستے پر ہی نہیں تھے بلکہ اردگرد بیٹھ کر یا کھڑے کھڑے اردگرد پھیلی خوبصورتی کو دیکھ رہے تھے اور گھوم پھر رہے تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#228
ہم بھی راستے کے ایک طرف موجود پتھر پر بیٹھ گئے اور جن نظاروں کو دیکھنے کیلئے اتنی دور آئے تھے ان میں کھو گئے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#229
میں نے پیچھے نظر دوڑائی تو جس جگہ ہماری بائیک پارک تھی وہ بہت دور نظر آ رہی تھی ۔ ہم کئی چھوٹی موٹی پہاڑیاں چڑھ کر یہاں تک پہنچے تھے لیکن کوئی خاص تھکاوٹ محسوس نہیں ہو رہی تھی اور ابھی لگ ایسے رہا تھا کہ کم از کم اتنا ہی فاصلہ ہم نے مزید طے کرنا تھا کیونکہ ابھی تک مزار شریف کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#230
جب ہم اگلی پہاڑی پر پہنچے تو بادل ہمارے اردگرد اتنی تیزی کے ساتھ گھر کر آئے کہ اندھیرا سا چھاگیا۔ اردگرد کے مناظر اور وادیاں بالکل بھی نظر نہیں آ رہی تھی اور خنکی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ نا قابل برداشت ہو جاتی۔ حد نگاہ کچھ دور تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی فلمی سا منظر بن گیا جس سے ہم نے خوب لطف اٹھایا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#231
اسی پہاڑی کی چوٹی پر ایک چھوٹا سا تالاب بھی تھا جس کے پاس سے ہوتے ہوئے ہم آگے چل پڑے۔ اردگرد پھیلے بادل کبھی تو زیادہ ہو جاتے اور کبھی کم اسی وجہ سے کبھی تو اردگرد کے مناظر نظر آنے لگ جاتے اور کبھی وہ بادلوں کی دبیز چادر میں چھپ جاتے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#232
کچھ دیر کے بعد جب بادلوں کا قافلہ ہمارے پاس سے گزر گیا تو اردگرد کے سر سبزو شاداب نظارے پھر سے نظر آنے لگ گئے۔ وہاں موجود دو سیاحوں نے استفسار پر بتایا کہ آگے تھوڑا ہی رہ گیا ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#233
تولی پیر ہائیک کا راستہ ایسا تھا کہ جیسے جیسے ہم آگے جا رہے تھے قدرت کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور سبزے کا قالین اور گہرا اور وسیع ہوتا جا رہا تھا اور اس قالین کے درمیا ن سے گزرتی پگڈنڈیوں کا ابھی اپنا ہی سحر تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#234
ایک دو سر سبز پہاڑیوں کو عبور کرنے کے بعد ہمیں مزار شریف نظر آ گیا جو کہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر تھا۔ ایک دومرلے جگہ جس کے اردگرد آہنی جنگلہ تھا میں چند قبریں تھیں اور ان پر کوئی عمارت بنی ہوئی نہیں تھی۔۔ وہاں پہنچ کر رب کائنات سے اپنے لئے اور صاحب مزار کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کی ۔ وہاں خواتین کی تعداد بہت زیادہ تھی جو کہ زیادہ تر مقامی تھیں اس وجہ سے وہاں صرف ایک چھوٹی سی ویڈیو بنا سکا اور کوئی تصویر نہ لے سکا۔ کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد ہم مزار شریف کی عقبی طرف نکل گئے اور کچھ ڈھلوان اتر کر چند پتھروں پر جا کر بیٹھ گئے یہ اس ہائیک کا اختتامی پوائنٹ تھا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#235
مقامی افراد کے مطابق اگر اس جگہ سے دور پیچھے اوپر نظر دوڑائیں تو مقبوضہ کشمیر کی پہاڑیاں بھی نظر آتی ہیں لیکن اس وقت دھند کی وجہ سے وہ اتنی واضح نہیں تھیں۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#236
کچھ دیر وہاں گزارنے کے بعد ہم نے واپسی کا سفر کر دیا۔ واپسی کے سفر کیلئے ہم نے دربار کی جس جانب سے ہم آئے تھے اس سے دوسری جانبی بغل کا انتخاب کیا ۔ مزار کے عقب میں ٹک شاپ اور کھانے کا ہوٹل موجود تھا جس کے سامنے ایک بہت وسیع و عریض سر سبز میدان تھا ۔ کمال کا منظر تھا جس کو دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ اتنی بلندی پر اتنے بڑے بڑے میدانوں کی مجھے توقع نہیں تھی اس لئے اسے دیکھ کر کچھ حیرت بھی ہوئی۔ میدان میں لوگ چل پھر رہے تھے اور ٹکڑیوں کی صورت میں بیٹھے ہوئے بھی تھے ۔ پوری پوری فیملیز بیٹھ کر پکنک منا رہی تھیں اور کھانا کھایا جا رہا تھا اور بچے کھیلتے پھر رہے تھے۔ وہاں ایک جھولا بھی نظر آرہا تھا۔ تولی پیر ٹاپ پر کچھ لوگ تو صاحب مزار سے اپنی عقیدت کی وجہ سے آتے ہیں جبکہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس علاقے کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کیلئے آ تی ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#237
پتا نہیں یہاں دوبارہ کبھی آنا ہو یا نہ ہو اس وجہ سے دل بھر کر وہاں کی خوبصورتی کو آنکھوں کے راستے دل میں اتار رہے تھے لیکن وہ جگہ ہی ایسی تھی کہ دل ہی نہیں بھر رہا تھا ۔ ہم نے آج ہی سدھن گلی، ضلع باغ پہنچنا تھا اس لئے مجبوراً واپسی کا سفر شروع کر دیا جو کہ آنے کی نسبت تیز تھا۔ ایک جگہ ایک مقامی شخص کے پاس بندر دیکھ کر طلحہ رک گیا اور اس سے کھیلنے لگ گیا۔ طلحہ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی بندر تو اس کو اپنا جھولا سمجھ کر جھولنے لگ گیا۔ جب وہ جھولتے جھولتے طلحہ کے ہاتھ کے قریب پہنچا تو طلحہ نے ڈر کر چھڑی کو ہی چھوڑ دیا کہ کہیں پنجہ ہی نہ مار دے لیکن بندر کے اس بچے کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا وہ تو جھولا ملنے پر خوش ہو رہا تھا۔ کچھ دیر ان مقامی افراد سے گپ شپ کے بعد ہم واپس چل پڑے۔ میرے ذاتی خیال میں تولی پیر آزاد کشمیر کی خوبصورت ترین جگہوں میں سے ہے اور ایک سیّاح کو لازمی دیکھنی چاہیئے اور ٹاپ تک جانا چاہیے کیونکہ کچھ لوگ تھک کر راستے سے ہی واپس ہو جاتے ہیں جو کہ میرے خیال میں اس جگہ کی خوبصورتی کے ساتھ زیادتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ راولا کوٹ سے تولی پیر پورے دن کی سر گرمی ہے اس لئے علی الصبح راولا کوٹ سے نکل کر اس طرف آیا جائے تاکہ اچھی طرح اس علاقے کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ بیس کیمپ کے آس پاس نائٹ کیمپنگ کیلئے بہت سی جگہیں موجود ہیں جہاں رات اس خوبصورت جگہ پر گزاری جا سکتی ہے۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#238
واپسی کے راستے میں ہمیں کئی سکول و کالج کے ٹرپ بھی نظر آئے اور بہت سے لوگ ٹاپ کی طرف جا رہے تھے ۔ سکول کے بچوں کی معصومانہ شرارتوں کو دیکھ کر ہونٹوں پر خو د بخود مسکراہٹ ابھر آئی ان سے کچھ مکالموں کا تبادلہ بھی ہوا اور پھر ہم تیزی کے ساتھ بیس کیمپ میں موجود اپنی بائیک کے پاس پہنچ گئے جو شاید کافی دیر سے ہماری غیر موجودگی کو محسوس کر رہی تھی۔ اسکے بعد بائیک پر سوار ہوئے اور واپس راولا کوٹ کی طرف سفر کا آغاز کر دیا ۔ راستہ وہی تھا جس سے ہم یہاں پر آئے تھے لیکن اب چڑھائی کم اور اترائی زیادہ تھی اسی وجہ سے طلحہ کو کم اترنا پڑ رہا تھا ۔ آدھے راستے کے بعد ایک جگہ پر ہم پیشاب کرنے کیلئے رک گئے ۔ جس جگہ کا میں نے انتخاب کیا تھا وہاں مجھے پہلے پتا نہیں چلا کہ چیونٹیوں کی کالونی آباد تھی اور پتا اس وقت چلا جب انھوں نے مجھ پر چڑھائی کر دی ۔ کافی دیر تک ان کو جسم سے جھاڑنے پر جان چھوٹی اور ایک نصیحت بھی ہو گئی کہ ایسے موقع پر اچھی طرح دیکھ کر بیٹھو۔ اسکے بعد نان سٹاپ راولا کوٹ پہنچے۔ راولا کوٹ سے کچھ پہلے ایک پمپ پر پٹرول بھی ڈلوایا اور اسکے واش روم سے جہاں مجھے خطرہ تھا کہ گزشتہ تجربہ میں پیشاب کے چھینٹے نہ پڑے ہو ٹراؤزر کو دھو بھی لیا پھر وہاں کی ہی مسجد میں نماز بھی ادا کی ۔ پھر باغ کی طرف جانے والے راستے کیلئے میں نے موبائل پر گوگل میپ آن کر دیا لیکن جب ہم اس کے مطابق ایک چوک پر پہنچے تو جس طرف وہ میپ اشارہ کر رہا تھا وہاں ٹریفک پولیس نے رکاوٹ لگا کر راستے کو بند کیا ہوا تھا ۔ ایک غیر مقامی کیلئے یہ پریشانی کی بات تھی کیونکہ ہمیں تو متبادل راستوں کا بھی کوئی علم نہیں تھا۔ ٹریفک پولیس والے نے ہمیں دوسری طرف جانے کا کہا تو ہم نے اسے بتایا کہ ہمیں تو گوگل میپ یہی بتا رہا ہے کہ ادھر جانا ہے اس پر وہ کچھ برہم ہو گیا کہ گوگل میپ نے لوگوں کا دماغ خراب کر دیا ہے ہماری کوئی نہیں سنتا ہر کوئی گوگل میپ کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ ہم نے اس سے بحث مناسب نہیں سمجھی اور جدھر وہ کہہ رہا تھا ادھر چل پڑے لیکن کچھ دیر بعد ہم گھوم گھام کر اسی جگہ پر آ گئے اور ہمیں یقین ہو گیا کہ دنیا واقعی گول ہے۔ ایک دوسرے پولیس والے سے راستے کو دوبارہ سمجھا اور مقامی افراد سے بھی کئی بار مدد لینے کے بعد مقامی گلیوں سے ہوتے ہوئے بالآخر ہم باغ روڈ پر پہنچ گئے جو کہ ایک پی ایس او پمپ کے ساتھ سے ہی نکل رہا تھا لیکن اس کوشش میں راولا کوٹ میں ہمارا کم از کم آدھا پونا گھنٹہ ضائع ہو گیا ۔ وہ روڈ پمپ کے پاس سے تو اتنا چھوٹا گلی نما تھا کہ کسی کو نہ پتا ہو تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ ہی باغ روڈ ہے لیکن کچھ آگے جا کر وہ کھلا ہو گیا۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#239
Please subscribe, like, share my channel and also click the bell icon for coming videos.
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#240
اس کے بعد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہم رکے اور سفر ممکنہ حد تک تیزی سےجاری رہا۔ اترائی کافی زیادہ تھی اس وجہ سے بائیک کا اپنا زور تو نہ ہونے کے برابر لگ رہا تھا لیکن بائیک کر کنٹرول بہت کرنا پڑ رہا تھا۔ اترائی میں اگر بائیک کو کنٹرول نہ کیا جائے تو رفتار اتنی زیادہ ہو جائے کہ اس کو روکنا ممکن نہ رہے ۔ اسلئے میں چھوٹے گئیرز میں بائیک چلا رہا تھا اور بوقت ضرورت بریک کا بھی استعمال کر رہا تھا۔ راولا کوٹ –باغ کا فاصلہ تو چالیس کلومیٹر کے لگ بھگ تھا لیکن اترائی کی وجہ سے رفتار میدانی علاقوں جیسی نہیں ہو سکتی تھی۔ تقریباچھ بجے سے کچھ پہلے ہم نے راولا کوٹ کو چھوڑا تھا ۔ صرف چند ایک چھوٹے ٹکڑوں کے علاوہ باقی سڑک اچھی حالت میں تھی لیکن طلحہ کو سڑک کی بناوٹ پر انجینئرز سے اختلاف تھا اور ہم وقت گزاری کے لئے اسی بات پر مزاحیہ تجزیئے کرتے رہے۔ مغرب سے کچھ دیر بعد جب اندھیرا چھانا شروع ہی ہوا تھا ہم باغ پہنچ گئے۔ باغ میں جیسے ہی داخل ہوئے تو ایک سڑک دائیں اور دوسری بائیں جا رہی تھی۔ ہم نے سدھن گلی جانا تھا اس وجہ سے بائیں طرف مڑ گئے اور باغ لاری اڈہ کے قریب سے گزرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ کچھ آگے جانے کے بعد سڑک پھر شاخوں میں تقسیم ہو گئی۔ ہم نے تھوڑا دائیں طرف بلندی کی طرف جانے والی سڑک کو منتخب کیا جو کہ سدھن گلی روڈ کہلاتی ہے۔ اب ہمارا سفر چڑھائی والا تھا جو تقریباً پندرہ کلومیٹر تھا ۔ راولا کوٹ سے باغ تک تو بائیک سکون سے آئی تھی لیکن اب بلندی پر اس کو کام کرنا پڑ رہا تھا لیکن اچھی بات یہ تھی کہ سڑک بہترین حالت میں تھی۔ آہستہ آہستہ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ اس روڈ پر ٹریفک بھی بہت کم تھی اور ہمیں سڑک کے علاوہ آس پاس کے مناظر نظر نہیں آ رہے تھے۔ راستے میں کہیں کہیں کوئی چھوٹی آبادی اور اکّا دکّا مکان نظر آ جاتے۔ جب ہم آدھے سے زیادہ فاصلہ طے کر چکے تو راستے میں دو جگہیں ایسی آئیں جہاں سڑک ایک دم ختم ہو گئی اور پہاڑی سولنگ جو کہ نا ہموار پتھروں پر مشتمل ہوتا ہے آگیا۔ پہلے سولنگ کے آغاز پر میں بریک لگا کر سوچ میں پڑ گیا کہ اتنی اچھی سڑک اور اچانک ہی اتنی خراب حالت کہیں ہم غلط تو نہیں آ گئے ۔ وہ جگہیں ویران تھیں اس وجہ سے کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتے تھے۔ میں نے گوگل میپ بھی آن کیا ہوا تھا اور اس کے مطابق راستہ یہی تھی۔ بہر حال اللہ کا نام لیکر آگے بڑھے تو کچھ میٹرز کے بعد دوبارہ کارپٹڈ سڑک شروع ہو گئی اور ہم نے سکون کا سانس لیا ورنہ سولنگ روڈ پر تو سفر انتہائی مشکل ہو جاتا اور وہ بھی چڑھائی والا۔ اب تقریباً ہم اس سڑک پر تنہا ہی سفر کر رہے تھے اور کبھی کبھی شاید ہی کوئی بائیک یا گاڑی گزرتی جو کہ عام طور پر مقامی ہوتی۔ سڑک کے دونوں اطراف اندھیرا اور جنگل کا احساس ہو رہا تھا اور اندھیرے کی وجہ سے راستہ کچھ زیادہ ہی سنسان نظر آ رہا تھا۔ میں پہلی بار اس سڑک پر سفر کر رہا تھا اس وجہ سے بھی بڑی احتیاط کرنا پڑ رہی تھی کیونکہ راستہ بلدار پہاڑی تھا۔ ایک ویران سی جگہ پہنچے جہاں کوئی نظر نہیں آ رہا تھا صرف ایک عمارت موجود تھی تو گوگل میپ نے بتایا کہ سدھن گلی آ گئی ہے۔ ہم حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ یا اللہ یہاں تو کوئی آبادی اور بندہ بھی نظر نہیں آ رہا تو یہ کیسی سدھن گلی ہے۔ اندھیرے میں حد نگاہ تو ویسے ہی کم تھی لیکن پھر بھی کوشش کی کہ کہیں یہ نہ ہو اس سے کوئی سائیڈ روڈ جا رہا ہو سدھن گلی کو لیکن کوئی روڈ بھی نہیں تھا۔ اب کیا کریں اب تو واپس جانے والے بھی نہیں رہ گئے تھے۔ پریشانی سے کھڑے بے وقوفوں کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ اب یہاں کہاں رات گزاریں۔ یہ بھی سوچ تھی کہ کہیں یہاں سے آگے کوئی پیدل ٹریک نہ ہو لیکن اگر ایسا ہوا تو بائیک کو کہاں کھڑا کریں گے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس عمارت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے شاید وہاں کوئی ہو اور اس سے رہنمائی لی جائے یا اس سے رات گزارنے کی درخواست کی جائے تو سامنے سے دو تین پیدل افراد آتے ہوئے نظر آئے۔ ان کو دیکھ کر کچھ حوصلہ ہوا اور پھر ان سے پوچھا کہ بھائی کیا یہی سدھن گلی ہے تو انھو ں نے جب بتایا کہ آگے چلتے جائیں صرف دو منٹ میں آپ وہاں پہنچ جائیں گے تو بے اختیار سکون کا سانس لیا ورنہ تو سانسیں اتھل پتھل ہو رہی تھیں اور واقعی دو منٹ کی ڈرائیو کے بعد منظر اچانک ہی تبدیل ہو گیا اور سنسان راستہ ایک چھوٹے سے بازار میں تبدیل ہو گیا۔ میں نے پہلے بازار کا آخر تک ایک مکمل چکر لگایا تاکہ صورتحال کا اندازہ ہو سکے اور ساتھ ہی ٹینٹ کیلئے جگہ کا انتخاب کیا جا سکے۔ بازار سو ڈیڑھ سو میٹر کے ایریا میں ہی تھا اس لئے جلد ہی مجھے واپس ہونا پڑا۔ اب دوسرا مرحلہ کسی ہوٹل کا انتخاب تھا جہاں ہم کھانا کھا سکیں کیونکہ صبح تقریباً گیارہ بجے کے گرد ہی برنچ کیا تھا اور اب آٹھ بجے سے اوپر وقت ہو رہا تھا اور آنتیں قل ھواللہ پڑ ھ رہیں تھیں۔ بازار تقریباً سنسا ن تھا اور اکّا دکّا ہوٹل اور لوگ نظر آ رہے تھے ۔ ایک ہوٹل کا انتخاب کیا اور مینیو پوچھ کر کلیجی کا آر ڈر دے دیا۔ جسم بے حد تھک چکا تھا کیونکہ صبح سے ہی چل سو چل تھا اور اوپر سے تولی پیر کی پیدل ہائیک لیکن کھانا بھی ضروری تھا۔ واش بیسن سے فریش ہونے کے بعد جب تک کھانا آتا میں ٹیبل کے شیشے کے نیچے لگے ہوئے ٹورسٹ نقشے کو دیکھتا اور اور اگلے پروگرام کو بھی تولتا رہا۔ اس نقشے کی کچھ تصویریں بھی لیں اور ہوٹل سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس کوئی اور ایسا فالتو نقشہ بھی ہے لیکن اس کا جواب نفی میں تھا۔ بھوک شدید تھی اسلئے میں اور طلحہ آٹھ روٹیاں ہڑپ کر گئے ۔ کھانے کے بعد چائے بھی پی کیونکہ چائے آوارہ گردوں کیلئے دوا کا کام کرتی ہے۔ کھانے کا بل دو سو ستر روپے بنا ۔ اسکے بعد ہوٹل مالک سے گپ شپ بھی چلتی رہی۔ اس نے ہم سے پوچھا کہ رات سدھن گلی رکنا ہے یا آگے جانا ہے۔ جب ہم نے بتایا کہ رات یہیں رکنا ہے اور کیمپنگ کرنی ہے تو اس نے کہا کہ ہم اس کے ہوٹل میں رک جائیں اور کمرے کا کرایہ تقریبا ً ہزار روپے بتایا لیکن ہمارے بار بار انکار پر وہ پانچ سو اور پھر تین سو پر آگیا۔ ساتھ ساتھ وہ یہ بھی اظہار کر رہا تھا کہ یہ کمرے تو کئی ہزار روپے میں کرایے پر دیئے جاتے ہیں لیکن وہ ہم سے ہمدردی میں اتنا کم ریٹ دے رہا ہے۔ جیسے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بائیکرز بے چارے غریب ترین لوگ ہوتے ہیں وہ بھی کچھ ایسا ہی سمجھ رہا تھا اس وجہ سے اس کی حتی الامکان کوشش تھی کہ ان کو کم سے کم ریٹ پر بھی آمادہ کر لوں لیکن ہم نے ہوٹل میں رکنا ہی نہیں تھا چاہے اس کا کرایہ سو روپے ہی کیوں نہ ہو ۔ آخر میں اس نے ہمیں یہ بھی پیشکش کی کہ ہوٹل کے پچھواڑے میں ٹینٹ لگا لو لیکن جب میں نے اس جگہ تو دیکھا تو وہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں اس لئے اس کو مسترد کر دیا۔ اصل میں کیمپنگ کی جگہ کا میں انتخاب کر چکا تھا اور وہ جگہ ہوٹل کے سامنے موجود دوکانوں کے شٹرز کے سامنے والا بر آمدہ تھا لیکن ابھی دوکان کھلی تھی اور میں انتظار کر رہا تھا کہ وہ بند ہو جائے تو ہم اپنا ٹینٹ لگائیں اسی وجہ سے ہم اس ہوٹل میں موجود تھے۔کسی آبادی میں ٹینٹ لگانے کا میرا یہ ہی طریقہ واردات ہوتا تھا کہ انتظار کرو اور جب دوکانیں بند ہو جائیں تو ٹینٹ لگا لو اور صبح دوکان کھلنے سے پہلے سب سامان پیک کر لویہ طریقہ کافی محفوظ بھی تھا اور چھت کی وجہ سے بارش سے بھی بچت ہو جاتی تھی۔ جب نو سے اوپر وقت ہو گیا تو ہم پہلے ہوٹل کے واش روم سے فارغ ہوئے اور پھر اس بر آمدے میں اپنا ٹینٹ لگا دیا اس کے بعد طلحہ اندر گھس کر سلیپنگ بیگز اور سامان سیٹ کرنے لگ گیا اور میں نے بائیک اور ہیلمٹس کو لاک کرکے اوپر پیرا شوٹ کا کوّر ڈال دیا ۔ طلحہ بڑی سست رفتاری سے کام کرتا تھا اور مجھے کافی دیر باہر کھڑا رہنا پڑتا تھا ۔ ٹینٹ میں آنے کے بعد نوٹ بک پر کچھ ضروری نوٹ لیے اور پھر سو گئے۔میٹر ریڈنگ 23719۔
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#241
haroonmcs26
(haroonmcs26)
#242
تیسرا دن :چودہ جولائی 2019ء۔ صبح جلدی اٹھا ۔ نماز اداکی اور جلدی سے کیمپ کو سمیٹنا شروع کر دیا تاکہ دوکان کھلنے سے پہلے ہم سامان پیک کر لیں۔دوکان کھلنے سے پہلے پہلے ہم سامان کو بائیک پر دوبارہ لوڈ کر چکے تھے کیونکہ کسی دوکان کے آگے کیمپ لگانے کی صورت میں یہ ضروری ہوتا ہے تاکہ کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو۔ وہیں ایک چھوٹا سا کتے کا بچہ بھی تھا جو شاید اپنی ماں سے بچھڑ گیا تھا اور وہ اب ہمارے آگے پیچھے پھر رہا تھا اس کو وہاں ہی پڑے ہوئے ایک ڈبے میں ہوٹل سے دودھ خرید کر ڈالا۔ وہ کچھ دیر وہاں رہا اور پھر پتا نہیں کہاں غائب ہو گیا۔ جس ہوٹل میں ہم نے رات کا کھانا کھایا تھا اسی کے واش روم کو استعمال کرکے فریش ہوئے ۔ پہلے ارادہ تھا کہ اسی ہوٹل سے ناشتہ کرکے نکلیں گے لیکن ابھی وہاں صرف چائے ہی دستیاب تھی ناشتہ میں کچھ دیر تھی اس وجہ سے ہم نے سوچا کہ کہیں آگے جا کر دیکھیں گے اور تقریباً آٹھ بجے ہم اسی سڑک پر آگے گنگا چوٹی کی طرف روانہ ہو گئے ۔ کچھ دیر اس سڑک پر سفر کرنے کے بعد ہم ایک چوک پر پہنچ گئے جہاں سے ایک راستہ سیدھا، ایک دائیں طرف مظفر آباد کی طرف اور ایک مظفر آباد روڈ پر مڑتے ہی دائیں اوپرچڑھائی والا گنگا چوٹی کی طرف جا رہا تھا ۔ اس چوک پر ایک گیٹ سا بھی لگا ہوا تھا۔ ہم چڑھائی والے راستے پر گنگا چوٹی کی طرف مڑ گئے۔ شروع میں راستے کے اطراف کچھ مکانات نظر آئے اور اس کے بعد مکانات ختم ہو گئے۔ مقامی لوگوں کے مطابق تقریباً چھ کلومیٹر کا راستہ تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہمیں احساس ہو گیا کہ راستہ بہت دشوار چڑھائی والا ہے۔ وہ تو شکر تھا کہ سڑک کارپٹڈ تھی ورنہ تو اس پر ایک بندے کا بھی بائیک پر چڑھنا مشکل تھا۔ ایک تو چڑھائی اور اوپر سے بلند ہوتی مشکل یو ٹرن شکل والی سڑک۔ اور اکثر ایسے موڑوں پر طلحہ کو اترنا ہی پڑتا اور پھر کچھ فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا۔ بنیادی طور پر کشمیر ایسا علاقہ ہے جہاں ایک بائیک پر صرف ایک بندہ ہی ہونا چاہیئے لیکن اب تو ہمیں بھگتنا ہی پڑنا تھا اور زیادہ بھگتنا طلحہ کو پڑ رہا تھا جسے پیدل بھی چلنا پڑ رہا تھا ۔ میں بائیک اس کے حوالے بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ابھی وہ ان علاقوں کے حساب سے ٹرینڈ ڈرائیور نہیں تھا۔ میں مشکل چڑھائی چڑھ کر کسی نسبتاً ہموار جگہ پر رک کر اس کا انتظار کرتا اور پھر اس کو بٹھا کر آگے چل پڑتا لیکن جلد ہی اس کو پھراترنا پڑتا۔ ایک ایسے ہی چڑھائی والے مشکل موڑ پر جب میں اکیلا بائیک پر سوار تھا بائیک پر بندھے سامان کی وجہ سے جو پیچھے کرکے کیرئیر پر بندھا ہوا تھا بائیک تھوڑی غیر متوازن ہوئی اور میں با وجود کوشش کے اس کو سنبھال نہ سکا اور سڑک کنارے نسبتاً کچی جگہ پر گر گیا لیکن اللہ کے کرم سے بچت ہو گئی۔ گرتے گرتے بھی میں بائیک کی رفتار کو بہت کم کر چکا تھا اس وجہ سے بائیک ایک ہی جگہ پر جام ہو کر گری تھی ورنہ بائیں طرف گہرائی بھی تھی۔ سامان بھی تھوڑا ہل گیا تھا جسے دوبارہ سیٹ کیا۔ آدھے راستے میں میں سنجیدگی سے واپسی کا سوچ رہا تھا کہ اگر ایسا ہی راستہ رہا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔ اوپر سے بادل اور دھند بھی گھر کر آ گئے اور آس پاس کچھ فاصلے تک ہی حد نگاہ رہ گئی۔ کچھ بارش کی بوندیں بھی گریں اس سے تشویش بڑھ گئی۔ موسم سردی والا تو ہو گیا لیکن ساتھ ہی خوشگوار احساس بھی ہو رہا تھا۔ ہمارے پاس سے ایک ہونڈا سٹی کار میں سوار کچھ جوان گزرے ان کی گاڑی کو بھی اس چڑھائی پر بڑی محنت کر نا پڑ رہی تھی اور جب وہ ناکام ہوئی تو اس میں سوار ڈرائیور کے سوا باقی افراد کو اترنا پڑاتب جا کر گاڑی چڑھنے پر راضی ہوئی۔ یہ دیکھ کر ہمیں بھی حوصلہ ہوا کہ جب کار کو اتنی محنت کرنا پڑ رہی ہے تو پھر تو ہماری بائیک کا کوئی قصور نہیں ۔ کچھ آگے آیا تو دیکھا وہ کار والے لوگ سڑک کنارے رکے ہوئے تھے اور اپنی گاڑی کو ریسٹ دے رہے تھے۔ میں نے بھی ان کے قریب بریک لگائی اور طلحہ کا انتظار کرنے لگا ۔ اس دوران ان لوگوں سے گپ شپ ہوئی وہ لوگ لاہور سے آئے تھے ۔ وہیں میں نے بائیک کا ایئر فلٹر کھول کر نکال لیا تاکہ اسے زیادہ آکسیجن مل سکے اور چڑھائی میں کچھ آسانی ہو جائے۔ پھر طلحہ کو لیکر میں آگے چل پڑا۔ فلٹر ہٹانے سے بائیک میں پہلے سے زیادہ طاقت محسوس ہو رہی تھی لیکن آواز کچھ بھاری ہو گئی تھی۔ اسکے بعد طلحہ کو صرف ایک دو بار ہی اترنا پڑا تھا۔ تقریباً پانچ کلومیٹر بعد کارپٹڈ سڑک ختم ہو گئی اور آگے زیر تعمیر پتھر بچھی ہوئی سڑک تھی۔