کنهٹی کی أبشار پر پانی کا جتنا شور هے کھبیکی جھیل پر اتنا هی امن, چین,سکون, خامشی اور شانتی هے
_ مسافر کو اقبال کی غزل بے ساخته یاد آئی_
_ دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب _
_ کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو _
_ شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا _
_ ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو _
_ مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری _
_ دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو _
_ آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں _
_ دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو _
_ لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں _
_ چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو _
_ گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا _
_ ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو _
_ ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا _
_ شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو _
_ مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل _
_ ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو _
_ صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں _
_ ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو _
_ ہو دل فریب ایسا کوہسار کا نظارہ _
_ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو_
****