اور بھی کشتیاں مسافروں کو لیکر جھیل میں تیر رہیں تھیں۔ دور کنارے کے پار شاہراہ قراقرم اور اسکی ٹنل بھی نظر آ رہی تھی۔
دور تک پھیلی ہوئی جھیل اور پہاڑ۔
ہماری کشتی کا ڈرائیور اور دوسرے مسافر۔ پیچھے دور وہ جگہ جہاں سے ہم کشتی میں سوار ہوئے تھے۔
کشتی کا فرنٹ جس کے ساتھ ہی ہم نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ کیونکہ یہاں سے جھیل کا بھر پور نظارہ کیا جا سکتا تھا۔
جھیل کی لمبائی کافی زیادہ ہے یہ پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ہوئی جاتی ہے۔
پہاڑوں پر پانی کے اثرات کا واضح مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
پانی کو دیکھ کر سکون کا احساس ہو رہا تھا۔
جھیل کے پانی میں مختلف رنگوں کی آنکھ مچولی نظر آ رہی تھی۔
اب جھیل میں کئی کشتیاں نظر آرہیں تھیں۔
پہاڑ کی بلندیوں سے اترتا ہوا پانی کا ایک جھرنا۔
پہاڑوں پر دھوپ چھاؤں کا کھیل جاری تھا۔
پہاڑوں پر سبزہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن یہ خشک پہاڑ جھیل کے ساتھ خوبصورت امتزاج بنا رہے تھے۔
ڈھلتی شام کی دھوپ پہاڑوں کی چوٹیوں کو اس دن کا آخری بوسہ دے رہی تھی۔
جھیل کا خوبصورت نیلگوں پانی بار بار ہماری اور ہمارے کیمرے کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتا تھا۔
جھیل، سرنگ سے نکلتی شاہراہ قراقرم اور پہاڑ سے اترتا ہوا جھرنا۔
صرف ایک لفظ۔ "امیزنگ"۔
احمد پر بھی جھیل اپنا جادو دکھا رہی تھی۔
تصویر کھنچوانے میں وسیم کہاں پیچھے رہتا ہے۔
گروپ سیلفی۔
احمد اور میں، تھکے ہوئے چہرے لیکن پر سکون ۔