کشتی کا ڈرائیور کشتی کے پچھلے حصے کی طرف اونچی جگہ پر بیٹھا ہوتا ہے۔ وسیم اور احمد کشتی کے کپتان کے ساتھ۔
اب وسیم نے کپتان کی سیٹ سنبھال لی تھی۔
میرا خیال ہے اب تو دوستوں کو سست روی سے پوسٹ کرنے کی شکایت نہیں ہونی چاہیئے۔
Nhn Bhai abi to apko award milna chye...
[/quote]
آپ کی خوشی ہی ہمارا ایوارڈ ہے۔
کم از کم آدھے گھنٹے کشتی پر جھیل کی سیر سے لطف اندوز ہونے کے بعد آگے روانگی کا ارادہ کیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر دوبارہ کچھ بلندی پر واقع شاہراہ قراقرم پر آ گئے ۔ارادہ ہنزہ میں قیام کا تھا۔
یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی دوران وسیم اور احمد کا کچھ ذاتی وجوہات کی بناء پر واپسی کا ارادہ بن گیا۔ اچانک پروگرام کی اس تبدیلی نے مجھے بہت ہی زیادہ اپ سیٹ کر دیا۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔ اس سفر کیلئے میں نے کئی ماہ ورکنگ کی تھی۔ بے شمار معلومات حاصل کی اور جب اپنی تمام مصروفیات سے بھا گ کر یہاں آ گیا تو یہ اچانک کیا ہو گیا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے دل ہی بجھ گیا ہو۔ اس ٹور کی تیاری کیلئے سارے انتظامات خود کیے، وسیم اور احمد کو بالکل بھی بھاگ دوڑ نہ کرنا پڑی اور جب اس علاقے میں آنے کا خواب پورا ہو گیا تو اچانک خواب ٹوٹ گیا۔ ابھی تو راما جھیل اور اسکی وادی کو آنکھوں میں سمونا تھا۔ ابھی تو دیوسائی کے بلندو بالا میدانوں میں ویگن آر کو دوڑانا تھا۔ ابھی تو سکردو بھی جانا تھا۔ابھی تو شنگریلا ، کچورا، سدپارہ، شیوسر کے پانیوں کو دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ ابھی تو ضلع نگر کے سبزے اور ہوپر گلیشیئر کی ٹھنڈک سے آنکھوں کو سکون دینا تھا۔ ابھی تو نلتر جھیلوں کے صاف و شفاف پانی کی گہرائیوں سے جھانکتی تہوں کا نظارہ کر نا تھا۔ یہ کیا ہو گیا بھائی!!!!!!!!!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت بے دلی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ دماغ گھوما ہوا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیئے۔ ایک سوچ ذہن میں یہ بھی آئی کہ وسیم اور احمد کو پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے واپس روانہ کر دوں اور خود پروگرام پورا کرکے ہی جاؤں۔ لیکن پھر دل نے گوارا نہ کیا کہ ان کو پبلک ٹرانسپورٹ کے دھکے کھلواؤں۔ گھر تک پہنچنے میں انھیں کئی گاڑیوں کو بدلنا پڑے گا۔ذہن کئی اطراف میں تقسیم ہو رہا تھا۔ دل جانے کو بھی نہیں کر رہا تھا۔ ایکدم گاڑی میں خاموشی چھا گئی تھی۔ سارا ماحول اداس لگ رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ قدرتی مناظر بھی ہمارے دکھ کو محسوس کر رہے تھے اور وہ بھی یہ سن کر یہ مسافر ہمیں چھوڑنے کی باتیں کر رہے ہیں اداس ہو گئے تھے۔ ہم نے تو انھیں کہا تھا کہ بہت سے دن تمھارے ساتھ گزاریں گے لیکن اب وعدہ خلافی کر رہے تھے۔ شرمندگی اور اداسی کی کیفیت میں اب ان کے حسن کی طرف بھی نظر اٹھانے سے گریز کر رہے تھے۔ کافی بحث و مباحثہ کے بعد فیصلہ کیا کہ فی الحال جگلوٹ میں جا کر قیام کرتے ہیں پھر دیکھتے ہیں صبح کیا ہو گا۔ اگر پروگرام جاری رہا تو وہیں سے استور ، راما، دیوسائی سے ہوتے ہوئے سکردو چلے جائیں گے ورنہ واپس تو جانا ہی تھا۔ اپنے آپ کو کنٹرول کرتے ہوئے سست روی سے ڈرائیونگ ہو رہی تھی۔
کب کریم آباد اور علی آباد گزرا پتہ ہی نہ چلا۔ جب ہم علی آباد کے پاس سے گزر رہے تھے تو اچانک ایک گائے اچھا بھلا سڑک کے اطراف میں چلتے چلتے گاڑی کے سامنے آ گئی۔ سخت قسم کی بریک لگانی پڑی وہ تو شکر ہے کہ سپیڈ زیادہ نہیں تھی اور پیچھے بھی کوئی گاڑی نہ تھی ورنہ مسئلہ خراب بھی ہو سکتا تھا۔ ابھی دماغ اس ہوتے ہوتے حادثے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ خاتون جو گائے کے ساتھ تھی اس نے گائے کی رسی کو پکڑلیا۔ میرے دل میں تھوڑا غصہ تھا کہ اس خاتون کی تھوڑی سے لا پرواہی کی وجہ سے حادثہ ہو سکتا تھا۔ میں گاڑی سے اترنے کا پروگرام بنا ہی رہا تھا کہ اس مقامی خاتون نے اس انداز سے انگلش میں تھینک یو کا لفظ ادا کیا کہ اچانک ہی میرے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور غصہ رفو چکر ہو گیا۔ تھینک یو کہتے ہی وہ اپنی گائےکو لیکر چلی گئی۔ بہر حال ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنا سفر دوبارہ شروع کر دیا۔
شام ہو چکی تھی اور نماز مغرب کا بھی وقت ہو چلا تھا۔ علی آباد سے آگے ایف ۔ڈبلیو ۔او کی ایک مسجد سے اذان کی آواز سن کر وہاں بریک لگا دی ۔ واش روم سے فراغت ، اور ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کے بعد نماز ادا کی۔ مسجد میں ہی رکھے ہوئے ایک کولر سے پانی پینے کے بعد دوبارہ چل پڑے۔ پہاڑوں نے اندھیرے کی چادر اوڑھ لی تھی۔
جب راکا پوشی ویو پوائنٹ پر پہنچے تو احمد نے خیال پیش کیا کہ رات یہیں گزارتے ہیں لیکن میں نے سوچا جگلوٹ تک کافی سفر ہے اور صبح کافی وقت وہاں پہنچنے میں لگ جائے گا اسلئےبہتر ہے سفر جاری رکھا جائے۔ سڑک پر ٹریفک چل رہی تھی اور سڑک کی حالت بھی بہترین تھی اسلئے کوئی مسئلہ نہیں۔ البتہ ایک احتیاط ضرور کرنی چاہیئے اور یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ پہاڑی علاقے میں اگلے موڑ پر کیا ہے کچھ پتا نہیں۔ جیسے کئی جگہ پر واپسی پر ہم نے ہلکی پھلکی لینڈ سلائیڈ بھی دیکھی حالانکہ جاتے وقت ایسا نہیں تھا۔
تقریبا 7 بجکر 30 منٹ ہم راکا پوشی پوائنٹ سے آگے راکا پوشی فلنگ اسٹیشن پر پہنچ گئے ۔ گاڑی میں فیول تو تھا لیکن میں نے ٹینکی بھروانا مناسب سمجھا۔ میٹر ریڈنگ 31558 تھی۔ جب ہم نے پچھلی بار پٹرول ڈلوایا تھا تو اب تک ہم 440 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ 1400 روپے میں 21.79 لٹر پٹرول ڈلوایا۔ اس لحاظ سے ویگن آر نے خنجراب کے ٹور میں 20.19 کلومیٹر فی لٹر کی ایوریج دی تھی۔ ماشا ء اللہ۔ اتنے زیادہ چڑھائی اور کم آکسیجن والے ٹور میں زبردست ساتھ دے رہی تھی اور ہماری جیب کا بھی خیال رکھ رہی تھی۔ یہاں ڈرائیونگ کرتے وقت میں نے بس ایک خیال رکھا تھا کہ آر ۔ پی ۔ ایم کو تین تک رکھا تھا جو کہ بہترین ایوریج حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
اب میری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ محفو ظ ڈرائیونگ کرتے ہوئے جتنی جلدی ممکن ہو سکے جگلوٹ پہنچا جا سکے ۔ سڑک صاف اور بہترین تھی کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن وسیم اور احمد نے اپنی روٹین کے مطابق سونا شروع کر دیا۔ رات کا وقت تھا ٹریفک بھی کم ہو گئی تھی۔ سارا دن اتنی طویل ڈرائیونگ کے بعد تھکن بھی اثر انداز ہو رہی تھی۔ مجھ پر بھی نیند نے اثر ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ ویسے تو شاید نیند نہیں آتی لیکن ساتھیوں کو دیکھ کر اثر ضرور ہوتا ہے۔ اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ جو گولیاں ہم ساتھ لائے تھے وہ کھانا شروع کر دی ۔ جیسے لوگ چین سموکنگ کرتے ہیں میں نے کینڈی ایٹنگ شروع کر دی۔ میں نے کبھی بھی ایک بار میں اتنی گولیاں ٹافیاں نہیں کھائیں جتنی اسوقت کھائی تھی۔ کبھی گولیاں کھاتے ، کبھی چہرے پر تھپڑ مارتے اور کبھی کولڈ ڈرنگ پیتے میں نے اپنے آپ کا جگائے رکھا اور ڈرائیونگ کرتا رہا۔ میں کسی اور کو ایسا کرنے سے منع کرتا ہوں کیونکہ یہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے لیکن مجھے پتا تھا کہ میں اپنے آپ پر کنٹرول کر سکتا ہوں۔ سفر تیزی سے سمٹ رہا تھا۔ دنیور، گلگت، تین پہاڑی سلسلوں کے سنگم کا پوائنٹ سب پیچھے رہ گئے۔ رات تقریبا 11 بجے ہم سہیل بھائی کے سٹور پر پہنچ گئے۔ سٹور پر اس وقت سہیل کا بڑا بھائی موجود تھا۔ اس سے اجازت لیکر سٹور کے ساتھ لان میں جلدی جلدی کیمپ لگایا۔ وسیم تو فورا ہی سو گیا کہ میں نے کھانا نہیں کھانا۔ میں بھی لیٹ گیا لیکن احمد کو بھوک لگ رہی تھی۔ تو اس نے کچھ پکانا شروع کر دیا۔ جب میں نے احمد کو اکیلے پکاتے دیکھا تو میں دوبارہ کیمپ سے باہر آ گیا۔ ہم دونوں نے مل کر سویاں پکائیں۔ خود کھانے کے علاوہ سٹور پر موجود سہیل کے بھائی کو بھی بھجوائی اور پھر گھوڑے بیچ کر سو گئے۔ بہت لمبا سفر جو طے کیا تھا۔
رات کا سفر تھا اسلئے تصاویر نہ لے سکے۔
Ye to hand ho gaya
بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔
صبح جلدی بیدار ہو گئے ۔ آخر واپسی کا فیصلہ ہو گیا۔ دل تو نہیں کر رہا تھا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی واپس جانا تھا۔ دل بجھا بجھا سا تھا۔ خاموشی سے ناشتہ بنا یا اور کھایا گیا۔ کیمپ وغیرہ پیک کرکے گاڑی میں رکھا گیا اور واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ تقریبا ساڑھے چھ بجے روانہ ہو گئے اسلئے سہیل بھائی سے ملاقات نہیں ہو سکی ان کا سٹور تھوڑا دیر سے کھلتا تھا۔
واپسی تو شروع ہو گئی تھی لیکن دل میں پکا ارادہ بنا لیا کہ واپس پہنچ کر فیملی کے ساتھ فورا پہاڑی علاقوں کا سفر کروں گا۔ کیونکہ اتنی لمبی منصوبہ بندی کے بعد مجھے پہاڑوں کی چند دن کی رفاقت قبول نہیں تھی۔ میں ان کے ساتھ کچھ اوریادگار وقت گزارنا چاہتا تھا۔ پھر پتا نہیں کب مصروف زندگی سے وقت نکال سکوں۔
Outstanding... you know the art of writing and putting every piece of info in a great sequence which is so amazing and worth reading!! thank you so much for sharing your experience which will be really helpful for everyone and i do feel sorry about change in the plan and not sure if it was an important issue that your cousins decided to return or they just started to feel home sickness..
Absolutely right about the glaciers , they should be enjoyed from the outside.