کچھ لوگ گھوڑے کرائے پر لیکر جارہے تھے تو کچھ پیدل ۔ ہمیں بھی گھوڑے والوں نے پیش کش کی لیکن ہم نے اپنی دو ٹانگوں کو ہی ترجیح دی۔
پرانی یادیں 2005۔ جھیل سیف الملوک کے راستے پر لی گئی میری ایک یادگا ر تصویر۔
پرانی یادیں 2005۔ میرے اور میرے دوست وسیم (یہ دوسرا وسیم ہے موجودہ نہیں) کے درمیان ہونے والی برف کے گولوں کی جنگ۔
پرانی یادیں 2005۔ ناران کے قریب لی گئی کچھ تصاویر۔
پرانی یادیں 2005۔ میں اور کراچی سے تعلق رکھنے والے کاشف صاحب جھیل سیف الملوک کی طرف جانے والے راستے میں آنے والے ایک چشمے کے ساتھ۔
Too good man, really awesome piece of information. Yet I have request to summarize it so that people who want to visit these areas can read in one go. Please mention routes, road conditions, places to live and places to visit.
پسند کرنے کا شکر گزار ہوں۔ کوشش ہے کہ تمام معلومات کو اس انداز میں پیش کروں کہ سفر کرنے والوں کو اس سے مدد مل سکے۔ ہم جہاں جہاں سے گزرے میں نے ساتھ ساتھ روڈ کنڈیشنز کے بارے میں لکھا ہے۔ دوسرا سمری والی بات کا ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ابھی تو اس تھریڈ کو مکمل کرنے کیلئے مشکل سے وقت نکال پا رہا ہوں۔شکریہ
bht khoob
حوصلہ افزائی کا شکریہ
پرانی یادیں 2005۔ شوگران میں لی گئی ایک تصویر۔
پرانی یادیں 2005۔ شوگران سے سری پائے کا راستہ چند کلومیٹر ہے لیکن یہ مسلسل چڑھائی والا راستہ ہے ۔ 2005 میں تو ہم اسکو سڑک نہیں کہہ سکتے تھے۔جس پر کار کے جانے کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صرف جیپ ٹریک تھا اور کئی جگہوں پر جا کر تو جیپ بھی مشکل میں پڑ جاتی تھی۔ لوگ جیپوں پر وہاں جا رہے تھےلیکن ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ پیدل ٹریکنگ کی جائے۔ شوگران میں ہم نے پنجاب ہوٹل میں قیام کیا تھاوہاں سے جلد ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر نکل پڑے۔ سامان وغیرہ پشت پر لٹکائے گئے بیگز میں تھا۔ راستہ مسلسل چڑھائی والا تھا اور اردگرد گھنا جنگل تھا کہیں کہیں مقامی لوگ اپنے مویشیوں کو چراتے ہوئے مل جاتے ورنہ سنسان ہی راستہ تھا۔ اسوقت وہاں بہت ہی کم لوگ جاتے تھے سرے پائے میں رات قیام کی کوئی جگہ نہیں تھی اور کوئی ہوٹل بھی نہ تھا صرف ایک چھوٹا سے ڈھابہ تھا جہاں سے پانی اور کولڈ ڈرنک کے ساتھ بسکٹ اور چپس وغیرہ مل جاتی تھی شاید دشوار گزار راستہ اور قیام کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا جانا کم تھا یا شاید ابھی سیزن کا آغاز تھا۔ ہمیں راستے میں صرف چند جیپ ملیں ان میں جانے والے لوگ ہاتھ اٹھا کر ہماری حوصلہ افزائی کرتے۔ پہاڑی چڑھائی پر تھکاوٹ جلد ہوجاتی ہے اور سانس پھول جاتا ہے اسلئے راستے میں تھوڑا تھوڑا قیام کرکے ہم بالآخر وہاں پہنچ گئے۔ سری کے مقام پر ایک چھوٹی سی جھیل تھی اور اس مقام سے اردگر کے پہاڑوں کا خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ سری کی ایک بات جو مجھے بہت پسند آئی وہ اس کی قدرتی خوبصورتی تھی جو کہ حضرت انسان کی بگاڑ سے ابھی تک محفوظ تھی۔ کیا ہی آنکھوں میں ٹھنڈک اور سکون کا احساس دلانے والا نظارہ تھا۔جھیل کے آس پاس اور گھوڑوں پر کچھ تصاویر اتروائیں آگے پائے اور مکڑا تک جانے کا ارادہ اس وجہ سے کینسل کر دیا کیونکہ ابھی ہم نے پیدل ہی واپس جانا تھا۔ اس علاقے کا نام سری پائے کیسے پڑا اس کے متعلق ہم نے ایک کہانی سنی جو پتا نہیں حقیقت تھی یا افسانہ۔ کہتے ہیں کہ بہت پہلے ایک شیر مقامی لوگوں کی بکری اٹھا لے گیا لوگوں نے اس کا پیچھا کیا ۔ لوگوں کو جس مقام پر بکری کی سری ملی اس جگہ کا نام سری اور جس مقام پر پائے ملے اسکا نام پائے پڑ گیا۔واللہ اعلم۔ تقریبا دو بجےہم نے پیدل واپسی کا سفر شروع کیا ۔واپسی کا سفر کیونکہ اترائی میں تھا اسلئے جلدی طے ہو گیا دوسرا اس میں ہم نے کئی جگہوں پر شارٹ کٹ بھی مارے۔ شوگران پہنچ کر سوچا کہ کیوائی تک بھی پیدل ہی چلا جائے۔ جب جذبہ جوان ہو تو اس طرح کے فیصلے ہو جاتے ہیں۔ لہذا ہم تینوں نے کیوائی تک واپسی کا سفر پیدل ہی شروع کر دیا۔ کچھ لوگ شاید ہمیں پاگل تصور کریں کہ یہ کافی فاصلہ بن جاتا ہے اور پیدل۔ لیکن چڑھتی ہوئی جوانی میں ایسے کام ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو چھیڑتے اور باتیں کرتے چلتے رہے۔ ایک جگہ برف دیکھ کر ہم نے برف بھائی فاروق کی قمیض میں ڈال دی ۔ وہ اچھلنے لگ گیا پھر اس نے بھی برف پکڑی اور ہمارے پیچھے دوڑ لگا دی۔ اترائی کی وجہ سے رفتار بڑھتی ہی جارہی تھی۔ اسلئے رک کر اپنے آپ کو کنٹرول کیا ۔ اسوقت تک فاروق کے ہاتھ سے برف گر چکی تھی اسلئے وہ اپنا بدلہ نہ لے سکا ۔ کیوائی سے کچھ پہلے ایک مہران ٹیکسی والے نے جو شوگران سے واپس آرہا تھا ہمارے پاس گاڑی روکی اور لفٹ کی پیش کش کی ۔ ہم نے کئی بار شکریہ کے ساتھ اسکی پیش کش ٹھکرا دی لیکن اس کے بار بار اصرار پر ہم اسکے ساتھ بیٹھ گئے اور پھر مانسہرہ تک ہم اسکے ساتھ ہی گئے۔ اس نے اونچی آواز میں اویس قادری کی ایک نعت لگائی ہوئی تھی پہاڑی راستے پر اس کو سن کر مزہ آگیا۔ کئی جگہ پر جہاں اترائی آتی تھی ڈرائیور گاڑی کو بند کر دیتا تھا اور جب رکنے لگتی تو پھر اسٹارٹ کر دیتا۔ کافی خطرناک کام تھا۔ بہرحال راستے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم مانسہرہ پہنچ گئے جہاں سے ہم لاہور جانے والی کوچ میں بیٹھ کر لاہور واپس آگئے۔
پرانی یادیں 2005۔ سری کے آس پاس لی گئی کچھ تصاویر۔
پرانی یادیں 2005۔کاغان میں لی گئی کچھ تصاویر۔
پرانی یادیں 2005۔کاغان کے پاس سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے میری اور دوست وسیم کی ایک تصویر۔
Dear haroon bhai. Can you please tell me that can new Cultus with good engine go till babu sar top. Specially while coming from khunjrab. Thanks
نمبر 1 : جی ہاں میں نے سارا سفر اپنی ویگن آر میں ہی کیا ہے۔ ابتدائی پلان جو بنایا تھا وہ تبدیل ہو گیا اسلئے استور، دیوسائی اور سکردو سائید کا پلان مکمل نہ ہو سکا۔نمبر 2: آپ آسانی سے خنجراب تک اپنی کرولا پر جا سکتے ہیں بذریعہ ناران صرف ایک بات کا خیال رکھیں جب بھی پروگرام بنائیں وسط جولائی کے بعد کا ہی بنائیں کیونکہ اس وقت تک درہ بابو سر ٹاپ ہر قسم کی ٹریفک کیلئے کھل جاتا ہے۔ نمبر 3: ناران تک صورتحال ٹھیک ہے ناران میں نیٹ سگنل آ رہے تھے لیکن ہنزہ سائیڈ پر کئی جگہوں پرنیٹ تو کیا موبائل سگنل بالکل نہیں آتے لیکن جو مین سٹاپ ہیں وہاں پر مہیا ہیں مثلا جگلوٹ پر میں نے واٹس ایپ کال کی، علی آباد اور کریم آباد وہاں موجود تھے۔ لیکن ہر جگہ آپ نیٹ استعمال نہیں کر سکتے۔ایک اور چیز ان علاقوں میں ایس کام نیٹ ورک زیادہ چلتا ہے اس کے بارے میں معلومات آپ وہاں جا کر لے سکتے ہیں اور اسکی سم بھی مل جاتی ہے۔کوشش کریں وہاں اپنے ساتھ مختلف نیٹ ورک کی سم لے جائیں ۔زیادہ نیٹ ورک پرابلم کریم آباد سے آگے خنجراب کی طرف ہے۔
پہلی بات تو جب بھی پروگرام بنائیں وسط جولائی کے بعد کا بنائیں کیونکہ اس وقت تک درہ بابو سر ہر قسم کی ٹریفک کیلئے کھل جاتا ہے۔ بابو سر ٹاپ کے پاس چڑھائی کافی ہے لیکن اگر مکینیکلی گاڑی فٹ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں صرف ڈرائیور کا تجربہ کار ہونا ٖضروری ہے۔ بابو سر ٹاپ کے قریب گاڑی پہلے یا دوسرے گئیر میں ہی چلتی ہے۔ وہاں ڈرائیونگ کرتے وقت ایک بات کا ضرور خیال رکھیں کہ روڈ پر اپنی سائیڈ پر ہی گاڑی ڈرائیو کریں کیونکہ چڑھائی پر کئی موڑ بالکل یو ٹرن آتے ہیں جہاں چڑھتے یا اترتے وقت آپ کو دوسری طرف سے آنے والی گاڑی نظر نہیں آتی بہتر تو یہ ہے کہ ایسے موڑ پر ہارن کا بھی استعمال کیا جائے تاکہ دوسری طرف سے آنے والا خبردار ہو جائے۔اترائی پر گاڑی چھوٹے گیئر میں چلائیں تاکہ انجن خود رفتار کو کنٹرول کریں سارا کنٹرول بریکس پر ہی نہ چھوڑ دیں کیونکہ ان کا زیادہ استعمال ان کو گرم کرکے انکی کارکردگی کو متاثر کرے گا۔بہرحال وہاں سے میں نے ہر قسم کی گاڑی کو گزرتے دیکھا ہے۔ بابو سر ٹاپ سے چلاس تک روڈ بہترین حالت میں ہے اسلئے انشا ء اللہ کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر آپ نے مری سے ایوبیہ نتھیا گلی سائیڈ پر ڈرائیو کی ہوئی ہے تو اس سے تھوڑا ہی مشکل راستہ ہے۔کسی قسم کی اور معلومات درکار ہوں تو میں حاضر ہوں۔
may is not good time to plan trip?