Originally published at: https://www.pakwheels.com/blog/urdu-import-used-cars-pakistan-dips-74-percent/
فروری 2019ء کے مہینے میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد میں 74 فیصد کمی آئی ہے، جو گزشتہ پانچ سال میں سب سے بڑی کمی ہے۔
SRO 52(1) 2019 نے اپنے اثرات دکھانے شروع کردیے
پاکستان محکمہ اعداد و شمار (PBS) کے ظاہر کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گاڑیاں درآمد کرنے کے رحجان میں کمی آئی ہے۔ جنوری 2019ء کے مقابلے میں کہ جب درآمدات لگ بھگ 37 ملین ڈالرز تھیں، یہ گرتے ہوئے 9.5 ملین ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں جو ایک مہینے کے عرصے میں 74 فیصد کی بہت بڑی کمی ہے۔ درآمدی بل کمپلیٹلی بلٹ یونٹس پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں عموماً CBUs کہا جاتا ہے جو جاپان سے 90 فیصد سے زیادہ استعمال شدہ گاڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ درآمدات میں کمی SRO 52(1) 2019 کے اجراء کے فوراً بعد ہوئی۔
اس کے مطابق تمام اقسام کی نئی اور استعمال شدہ درآمد کی گئی گاڑیوں پرڈیوٹی اور ٹیکس پرسنل بیگیج یا گفٹ اسکیم کے تحت ہوتی ہے، اور ان پر ادائیگی غیر ملکی زرِ مبادلہ کی صورت میں ادا کرنا لازمی ہے جس کا انتظام صرف دو افراد کر سکتے ہیں – پاکستانی شہری یا مقامی وصول کنندہ۔ غیر ملکی زرِ مبادلہ کو لازماً بینک انکیشمنٹ سرٹیفکیٹ کے ساتھ غیر ملکی ترسیلِ زر (remittance) کی مقامی کرنسی میں تبدیلی کے ثبوت کی ضرورت ہوگی۔ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی یہ خاص شرط ابتدائی طور پر نومبر 2017ء میں لگائی گئی تھی لیکن جلد ہی فروری 2018ء میں اٹھا لی گئی لیکن اس سال دوبارہ بحال کردی گئی۔
ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کے لیے درکار ترسیلاتِ زر سختی سے اس پاکستانی شہری کے کھاتے سے وصول کیے جائیں گے جو گاڑی پاکستان بھیج رہا ہے۔ اکاؤنٹ نہ ہونے یا نہ چلنے کی صورت میں ترسیلاتِ زر خاندان کے کسی قریبی رکن کے کھاتے سے وصول کی جا سکتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ تاجروں کی جانب سے درآمدی پالیسی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کیا گیا جس کا نتیجہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کمی کی صورت میں نکل رہا تھا۔
فروری 2018ء کے مقابلے میں 2019ء میں اسی مہینے میں گاڑیوں کی درآمد میں سال بہ سال کے مطابق 64 فیصد کمی آئی ہے۔ گاڑیوں کی درآمد کی تازہ ترین پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے چیئرمین آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ جاپان کے تمام سپلائرز نے نئی پالیسی کے نفاذ کے ساتھ ہی پاکستان کے لیے اپنی شپمنٹس معطل کردی ہیں۔ مزید یہ کہ صرف 15 جنوری سے پہلے بندرگاہ پر پہنچنے والی گاڑیوں کو ہی پرانی امپورٹ پالیسی کے تحت کلیئر کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اب پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد تقریباً ناممکن ہو چکی ہے اور حکومت جو پہلے کسٹمز ڈیوٹی کی صورت میں جو آمدنی حاصل کرتی تھی اب اس سے بھی محروم ہو سکتی ہے۔ انہوں نے قبول کیا کہ گزشتہ ماہ کے دوران بندرگاہ پر گاڑیوں کی کلیئرنس واضح طور پر کم ہوئی جو تقریباً 4000 سے 5000 گاڑیاں ماہانہ ہوتی تھی۔
چیئرمین نے لوکلائزیشن کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس کی عدم موجودگی کی وجہ سے چند اسمبلرز کو گزشتہ چند سالوں میں لامحدود منافع کمانے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
ہماری طرف سے اتنا ہی۔ آٹوموبائل انڈسٹری کے بارے میں مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔ اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔